قرض جاں سے نمٹ رہی ہے حیات
اس کی جانب پلٹ رہی ہے حیات
رفتہ رفتہ گھٹا چھٹے جیسے
بس اسی طرح چھٹ رہی ہے حیات
چہرہ پہچان تک نہیں پاتی
گرد میں اتنی اٹ رہی ہے حیات
جیسے سورج غروب ہوتا ہے
پھیل کر یوں سمٹ رہی ہے حیات
کتنے منظر ہیں ایک منظر میں
کتنے حصوں میں بٹ رہی ہے حیات
کوئی اس کو بڑھا نہ پایا عدیلؔ
لمحہ لمحہ جو گھٹ رہی ہے حیات
غزل
قرض جاں سے نمٹ رہی ہے حیات
عدیل زیدی