قریہ قریہ خاک اڑائی کوچہ گرد فقیر ہوئے
پورب پچھم ڈھونڈا اس کو آخر گوشہ گیر ہوئے
کون ہیں یہ کیا ربط تھا ان سے کیا کہئے کچھ یاد نہیں
یہ چہرے کب دل میں اترے کس لمحے تصویر ہوئے
سو پیرائے ڈھونڈے پھر بھی آج کے دن تک عاجز ہیں
ہائے وہ بات جو کہہ بھی نہ پائے اور دفتر تحریر ہوئے
صدہا گہری سوچ میں ڈوبی صدیاں ہم پر صرف ہوئیں
اک دو برس کی بات نہیں ہم قرنوں میں تعمیر ہوئے
وہ شب وہ شبخون عدو کا کس اسلوب بیان کریں
گھائل کیسے پہروں تڑپے ہم کس طور اسیر ہوئے
کیا میں کیا تو آج بھی دونوں خاک ہیں کل بھی خاک بشیرؔ
جینا ان کا مرنا ان کا جو وجہ خیر کثیر ہوئے

غزل
قریہ قریہ خاک اڑائی کوچہ گرد فقیر ہوئے
بشیر احمد بشیر