قریب سے نہ گزر انتظار باقی رکھ
قرابتوں کا مگر اعتبار باقی رکھ
بکھرنا ہے تو فضا میں بکھیر دے خوشبو
حیا نظر میں قدم میں وقار باقی رکھ
ہمیں ہمارے ہی خوابوں سے کون روکے گا
کھینچا ہوا ہے جو خط حصار باقی رکھ
ترا وجود عبارت ہے خوش ادائی سے
کشیدہ قامتیٔ خوش گوار باقی رکھ
خزاں سے صلح برت کیونکہ وہ تو آئے گی
پھر اہتمام سے فصل بہار باقی رکھ
یہ کج کلاہ نئے وقت کے نہ ٹھہریں گے
کھنچی کمان مرے شہریار باقی رکھ
مٹے مٹے سے نقوش قدم ہیں کچھ باقی
یہ خوشبوؤں میں بسی رہ گزار باقی رکھ
یہ سرد و گرم جو ماحول کے تقاضے ہیں
بہ چشم نم نفس شعلہ بار باقی رکھ
تکان ہے تو سنبھل جا مگر نہ اونگھ کبھی
سفر کی دھول بدن کا غبار باقی رکھ
انا بکھیر نہ ہرگز بچا کے رکھ خود کو
ہر ایک در پہ نہ دامن پسار باقی رکھ
یہ نو طرازیٔ معنی بھی ایک شے ہے عتیقؔ
روایتوں سے بھی رشتے سنوار باقی رکھ

غزل
قریب سے نہ گزر انتظار باقی رکھ
عتیق اثر