EN हिंदी
قمر گزیدہ نظر سے ہالہ کہاں سے آیا | شیح شیری
qamar-gazida nazar se haala kahan se aaya

غزل

قمر گزیدہ نظر سے ہالہ کہاں سے آیا

زبیر شفائی

;

قمر گزیدہ نظر سے ہالہ کہاں سے آیا
چراغ بجھنے کے بعد اجالا کہاں سے آیا

ندی میں وہ اور چاند ہیں ایک ساتھ روشن
زمیں پر آسمان والا کہاں سے آیا

یہ غنچہ غنچہ سیاہ بھونرے کی بوسہ خواہی
سواد گلشن میں ہم نوالا کہاں سے آیا

فضا کی آلودگی تھی پہلے ہی نیم قاتل
یہ دل میں ایک اور داغ کالا کہاں سے آیا

قریب تر دوستوں سے ہونے کی آرزو میں
ابھی ابھی پشت پر یہ بھالا کہاں سے آیا

میں خواب میں بھی تری گلی سے نہیں گزرتا
یہ دونوں تلووں میں سرخ چھالا کہاں سے آیا

کہاں گیا سکہ سکہ قارون کا خزانہ
زبیرؔ ہاتھوں میں یہ پیالہ کہاں سے آیا