EN हिंदी
قلم سے رابطۂ رنگ و آب ٹوٹ گیا | شیح شیری
qalam se rabta-e-rang-o-ab TuT gaya

غزل

قلم سے رابطۂ رنگ و آب ٹوٹ گیا

صبا نقوی

;

قلم سے رابطۂ رنگ و آب ٹوٹ گیا
کسی مصور فطرت کا خواب ٹوٹ گیا

یہ دل کہ سنگ نہ تھا ایک آبگینہ تھا
نہ لا سکا ترے جلووں کی تاب ٹوٹ گیا

سوال یہ ہے کہ میں نے کسی سے کیا پایا
جواب یہ ہے کہ برسوں کا خواب ٹوٹ گیا

ہوا وہ مجھ سے مخاطب تو یوں لگا جیسے
کوئی ستارۂ گردوں رکاب ٹوٹ گیا

اصول آمد و رفت بہار کیا کہیے
کلی جو شاخ پہ آئی گلاب ٹوٹ گیا

غزل کے شعر جو رسوائے انتخاب ہوئے
بھرم نظر کا پس انتخاب ٹوٹ گیا

رہ ہوس میں تھی حائل ضمیر کی آواز
مگر تقدس عہد شباب ٹوٹ گیا