EN हिंदी
قیس کہتا تھا یہی فکر ہے دن رات مجھے | شیح شیری
qais kahta tha yahi fikr hai din-raat mujhe

غزل

قیس کہتا تھا یہی فکر ہے دن رات مجھے

ظریف لکھنوی

;

قیس کہتا تھا یہی فکر ہے دن رات مجھے
مار دے ناقۂ لیلیٰ نہ کہیں لات مجھے

رخ روشن پہ فدا اور نہ سیہ زلف کا خبط
نہ کوئی دن ہے مجھے اور نہ کوئی رات مجھے

مکتب عشق میں بیٹھا ہوا حل کرتا ہوں
جیسے الجبرا کے ملتے ہیں سوالات مجھے

بوتلیں بیچتے نخاس میں دیکھا اس کو
کس جگہ جا کے ملا پیر خرابات مجھے

غسل خانے میں یہ غسال سے مردہ بولا
جیل ہے قبر تو یہ گھر ہے حوالات مجھے

رشتۂ عمر ہے کم اور مری رسی ہے دراز
آئی چرخے سے یہ آواز نہ تو کات مجھے

نئی تہذیب نے معشوق کا فیشن بدلا
کارڈ بھیجوں تو میسر ہو ملاقات مجھے

درد دل عشق میں ہے کاہے سے سیکوں میں ظریفؔ
نہ فلالین ہی ملتی ہے نہ بانات مجھے