EN हिंदी
قید میں رکھا گیا قطرہ تو غلطاں ہو گیا | شیح شیری
qaid mein rakkha gaya qatra to ghaltan ho gaya

غزل

قید میں رکھا گیا قطرہ تو غلطاں ہو گیا

رشید کوثر فاروقی

;

قید میں رکھا گیا قطرہ تو غلطاں ہو گیا
نور کی نہروں کو نا پیدا کراں ہونا ہی تھا

شہرہ ہیکل کے لئے آوازہ پیکر کے لئے
ہر توانائی کو بے نام و نشاں ہونا ہی تھا

ہم نے کچھ یوں ہی نہیں جھیلا تھا قرنوں کا عذاب
آخر اس دیر آشنا کو مہرباں ہونا ہی تھا

تنگ جب کر دی گئی ہم پر زمیں کرتے بھی کیا
لازماً ہم کو زمیں سے آسماں ہونا ہی تھا

کہکشاں کی سمت اٹھنے تھے ابد پیما قدم
جانب سیار طیارہ رواں ہونا ہی تھا

تھا قفس میں بھی تو تھا فوارۂ‌ آہنگ و رنگ
اس پرندے کو تو جنت آشیاں ہونا ہی تھا