قید امکاں سے تمنا تھی گمیں چھوٹ گئی
پاؤں ہم نے جب اٹھایا تو زمیں چھوٹ گئی
لیے جاتا ہے خلاؤں میں جمال شب و روز
دن کہیں چھوٹ گیا رات کہیں چھوٹ گئی
زندگی کیا تھی میں اک موج کے پیچھے تھا رواں
اور وہ موج کہ ساحل کے قریں چھوٹ گئی
بود و باش اپنی نہ پوچھو کہ اسی شہر میں ہم
زندگی لائے تھے گھر سے سو یہیں چھوٹ گئی
دل سے دنیا تک اک ایسا ہی سفر تھا جس میں
کہیں دل اور کہیں دنیائے حسیں چھوٹ گئی
صبح دم دل کے مکاں سے سبھی رشتے ٹوٹے
در و دیوار سے فریاد مکیں چھوٹ گئی
کیا غریب الوطنی سی ہے غریب الوطنی
آسماں ساتھ چلا گھر کی زمیں چھوٹ گئی
غزل
قید امکاں سے تمنا تھی گمیں چھوٹ گئی
شہاب جعفری