قفس پہ برق گرے اور چمن کو آگ لگے
الٰہی گردش چرخ کہن کو آگ لگے
سلگ رہی ہیں مرے دل کی حسرتیں ایسے
بھری بہار میں جیسے چمن کو آگ لگے
ہر ایک قطرۂ شبنم بنا ہے انگارہ
عجب نہیں جو گل یاسمن کو آگ لگے
نہ پونچھ اشک مرے دیکھ اپنے دامن سے
خدا کرے نہ ترے پیرہن کو آگ لگے
قسم ہے ہم کو تری چشم مست کی ساقی
پئیں شراب تو کام و دہن کو آگ لگے
نصیب ہوں نہ جہاں طائروں کو دو تنکے
خدا کرے کہ اب ایسے چمن کو آگ لگے

غزل
قفس پہ برق گرے اور چمن کو آگ لگے
رام اوتار گپتا مضظر