EN हिंदी
قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو | شیح شیری
qafas mein hun gar achchha bhi na jaanen mere shewan ko

غزل

قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو

مرزا غالب

;

قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجان گلشن کو

نہیں گر ہمدمی آساں نہ ہو یہ رشک کیا کم ہے
نہ دی ہوتی خدایا آرزوئے دوست دشمن کو

نہ نکلا آنکھ سے تیری اک آنسو اس جراحت پر
کیا سینے میں جس نے خوں چکاں مژگان سوزن کو

خدا شرمائے ہاتھوں کو کہ رکھتے ہیں کشاکش میں
کبھی میرے گریباں کو کبھی جاناں کے دامن کو

ابھی ہم قتل گہہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں
نہیں دیکھا شناور جوئے خوں میں تیرے توسن کو

ہوا چرچا جو میرے پاؤں کی زنجیر بننے کا
کیا بیتاب کاں میں جنبش جوہر نے آہن کو

خوشی کیا کھیت پر میرے اگر سو بار ابر آوے
سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو

وفا داری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو

شہادت تھی مری قسمت میں جو دی تھی یہ خو مجھ کو
جہاں تلوار کو دیکھا جھکا دیتا تھا گردن کو

نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو

سخن کیا کہہ نہیں سکتے کہ جویا ہوں جواہر کے
جگر کیا ہم نہیں رکھتے کہ کھودیں جا کے معدن کو

مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالبؔ
فریدون و جم و کیخسرو و داراب و بہمن کو