قدموں سے اتنا دور کنارہ کبھی نہ تھا
نا قابل عبور یہ دریا کبھی نہ تھا
تم سا حسیں ان آنکھوں نے دیکھا کبھی نہ تھا
لیکن یہ سچ نہیں کوئی تم سا کبھی نہ تھا
ہے ذکر یار کیوں شب زنداں سے دور دور
اے ہم نشیں یہ طرز غزل کا کبھی نہ تھا
کمرے میں دل کے اس کے علاوہ کوئی نہیں
حیران ہوں کہ ایسا اندھیرا کبھی نہ تھا
کس نے بساط بحث کے مہرے بدل دیئے
تنہا تو تھا وہ پہلے بھی گونگا کبھی نہ تھا
امروز انتظار کا فردا تو کل بھی ہے
اندوہ امشبی کا سویرا کبھی نہ تھا
ہر ذہن میں ہمیشہ سلگتا ہے یہ سوال
آخر ہوا وہ کیوں جسے ہونا کبھی نہ تھا
دیوانہ تھا بھٹک گیا گم ہو گیا ہے قیس
خالی مگر کجاوۂ لیلیٰ کبھی نہ تھا
کل بھی اسی دیار میں تھا روشنی کا قحط
ایسا مگر چراغ کا دھندا کبھی نہ تھا
پگھلی کچھ اور برف تو اک اور شہر خواب
یوں بہہ گیا نشیب میں گویا کبھی نہ تھا
برسا ہے کس ببول پہ ابر بہار خیز
اتنا ہرا تو زخم تمنا کبھی نہ تھا
اس نے بھی التفات سے دیکھا تھا کب خلشؔ
میں نے بھی اس کے بارے میں سوچا کبھی نہ تھا

غزل
قدموں سے اتنا دور کنارہ کبھی نہ تھا
بدر عالم خلش