قدم سو من کے لگتے ہیں کمر ہی ٹوٹ جاتی ہے
کوئی امید جب بر آتی آتی ٹوٹ جاتی ہے
دریچے بند ذہنوں کے نہیں کھلتے ہیں طاقت سے
لگا ہو زنگ تالے میں تو چابی ٹوٹ جاتی ہے
تری الفت میں ایسا حال ہے جیسے کوئی مچھلی
نگل لیتی ہے کانٹا اور لگی ٹوٹ جاتی ہے
جدھر کے ہو ادھر کے ہو رہو دل سے تو بہتر ہے
کہ لوٹا بے تلی کا ہو تو ٹونٹی ٹوٹ جاتی ہے
اکڑ کر بولنے والے نہ ہو گر تان آٹے میں
توے سے قبل ہی ہاتھوں میں روٹی ٹوٹ جاتی ہے
چونی کے نہ تڑوانے پہ ہم سے روٹھنے والے
کہاں ہے تو کہ آ اب سو کی گڈی ٹوٹ جاتی ہے
غزل
قدم سو من کے لگتے ہیں کمر ہی ٹوٹ جاتی ہے
منّان بجنوری