EN हिंदी
قدم قدم پہ کھڑی ہے ہوا پیام لیے | شیح شیری
qadam qadam pe khaDi hai hawa payam liye

غزل

قدم قدم پہ کھڑی ہے ہوا پیام لیے

فیض جونپوری

;

قدم قدم پہ کھڑی ہے ہوا پیام لیے
کہ آ رہی ہے خزاں اپنا انتظام لیے

کسی فقیر کا جس نے نہ احترام کیا
وہ مسجدوں میں ملا مجھ کو احترام لیے

ترے عذاب میں مر کر ترے دریچے سے
میں جا رہا ہوں محبت کا انتقام لیے

مجھے گلی میں دکھی ہے فقط ضیا یعنی
چلی گئی ہے سیاست دعا سلام لیے

مجھے بھی یاد کے جگنو پکارتے ہیں فیضؔ
اندھیری رات میں اکثر کسی کا نام لیے