قدم قدم پہ کھڑی ہے ہوا پیام لیے
کہ آ رہی ہے خزاں اپنا انتظام لیے
کسی فقیر کا جس نے نہ احترام کیا
وہ مسجدوں میں ملا مجھ کو احترام لیے
ترے عذاب میں مر کر ترے دریچے سے
میں جا رہا ہوں محبت کا انتقام لیے
مجھے گلی میں دکھی ہے فقط ضیا یعنی
چلی گئی ہے سیاست دعا سلام لیے
مجھے بھی یاد کے جگنو پکارتے ہیں فیضؔ
اندھیری رات میں اکثر کسی کا نام لیے

غزل
قدم قدم پہ کھڑی ہے ہوا پیام لیے
فیض جونپوری