قبر پہ پھول کھلا آہستہ
زخم سے خون بہا آہستہ
دھیان کے زینے پہ یادوں نے پھر
دیکھیے پاؤں دھرا آہستہ
کہنے کو وقت گزرتا ہی نہ تھا
اور جگ بیت گیا آہستہ
کاٹے سے رات نہیں کٹتی تھی
پھر بھی دن آ ہی گیا آہستہ
آنکھ میں چہرہ بسا رہتا ہے
اس لئے اشک گرا آہستہ
میں جو مدت میں ہنسی دل نے کہا
کیا تجھے صبر ملا آہستہ
رو کے میں نے یہ کہا دنیا ہے
غم کو سہنا ہی پڑا آہستہ
غزل
قبر پہ پھول کھلا آہستہ
ماہ طلعت زاہدی