EN हिंदी
قبر میں اب کسی کا دھیان نہیں | شیح شیری
qabr mein ab kisi ka dhyan nahin

غزل

قبر میں اب کسی کا دھیان نہیں

سخی لکھنوی

;

قبر میں اب کسی کا دھیان نہیں
سچ ہے جب جی نہیں جہان نہیں

بند بلبل ہی کی زبان نہیں
ورنہ گل تو ہلاتے کان نہیں

دل نے خود الفت کمر کی ہے
اس میں کچھ میرا درمیان نہیں

ابھی کیا کیا نہ ہوگا حرج نصیب
ہم نہیں ہیں کہ امتحان نہیں

دیر کیوں زاہدوں نے چھوڑ دیا
کیا بتوں میں خدا کی شان نہیں

شمس کیسا چمک کے نکلا ہے
آج میرا جو مہربان نہیں

بات کیا ہے سخیؔ جو وہ ہم سے
ایسے چپ ہیں کہ کچھ بیان نہیں