EN हिंदी
قاتل سبھی تھے چل دئیے مقتل سے راتوں رات | شیح شیری
qatil sabhi the chal diye maqtal se raaton raat

غزل

قاتل سبھی تھے چل دئیے مقتل سے راتوں رات

رؤف خلش

;

قاتل سبھی تھے چل دئیے مقتل سے راتوں رات
تنہا کھڑی لرزتی رہی صرف میری ذات

تہذیب کی جو اونچی عمارت ہے ڈھا نہ دوں
جینے کے رکھ رکھاؤ سے ملتی نہیں نجات

خوابوں کی برف پگھلی تو ہر عکس دھل گیا
اپنوں کی بات بن گئی اک اجنبی کی بات

کانٹوں کی سیج پر چلوں شعلوں کی مے پیوں
سنگین مرحلوں کا سفر کون دے گا سات

سورج بھی تھک چکا ہے کہاں روشنی کرے
ورثے میں بٹ گئی ہے اندھیروں کی کائنات

سرگوشی بھی کروں تو بکھر جائے ایک گونج
بہروں کے اس ہجوم میں سنتا ہے کون بات

جھنجھلا کے کیوں نہ چھین لوں ٹوٹا ہے وہ عذاب
پھر وقت گھومتا ہے لئے درد کی زکات