قاتل ہے جو میرا وہی اپنا سا لگے ہے
دنیا سے جدا ہو کے وہ دنیا سا لگے ہے
ہر شام مرے دل میں ہے یادوں سے چراغاں
ہر شام مری پلکوں پہ میلا سا لگے ہے
کس حال پہ چھوڑے ہے مجھے گردش ایام
سبزہ بھی جہاں دیکھے ہوں صحرا سا لگے ہے
باطل کے جلائے ہوے دیپک کا ہے چرچا
جو سچ کا ہے سورج وہ تماشا سا لگے ہے
ساون کی بہاروں سا وہی حسن کا پیکر
کہنے کو ہے بیگانہ پر اپنا سا لگے ہے
غزل
قاتل ہے جو میرا وہی اپنا سا لگے ہے
محمد اظہر شمس