EN हिंदी
قاتل ہے جو میرا وہی اپنا سا لگے ہے | شیح شیری
qatil hai jo mera wahi apna sa lage hai

غزل

قاتل ہے جو میرا وہی اپنا سا لگے ہے

محمد اظہر شمس

;

قاتل ہے جو میرا وہی اپنا سا لگے ہے
دنیا سے جدا ہو کے وہ دنیا سا لگے ہے

ہر شام مرے دل میں ہے یادوں سے چراغاں
ہر شام مری پلکوں پہ میلا سا لگے ہے

کس حال پہ چھوڑے ہے مجھے گردش ایام
سبزہ بھی جہاں دیکھے ہوں صحرا سا لگے ہے

باطل کے جلائے ہوے دیپک کا ہے چرچا
جو سچ کا ہے سورج وہ تماشا سا لگے ہے

ساون کی بہاروں سا وہی حسن کا پیکر
کہنے کو ہے بیگانہ پر اپنا سا لگے ہے