EN हिंदी
قاصد تو خط کو لایا ہے کیوں کر کھلا ہوا | شیح شیری
qasid tu KHat ko laya hai kyunkar khula hua

غزل

قاصد تو خط کو لایا ہے کیوں کر کھلا ہوا

بلقیس بیگم

;

قاصد تو خط کو لایا ہے کیوں کر کھلا ہوا
خط ہے کہ ہے یہ میرا مقدر کھلا ہوا

پڑتے ہی اک نظر ہوا زخمی دل و جگر
قاتل تری نظر ہے کہ خنجر کھلا ہوا

قاصد سے کیا کہوں میں لکھوں خط میں ان کو کیا
پنہاں کے دل کا حال ہے ان پر کھلا ہوا