قاصد تو خط کو لایا ہے کیوں کر کھلا ہوا
خط ہے کہ ہے یہ میرا مقدر کھلا ہوا
پڑتے ہی اک نظر ہوا زخمی دل و جگر
قاتل تری نظر ہے کہ خنجر کھلا ہوا
قاصد سے کیا کہوں میں لکھوں خط میں ان کو کیا
پنہاں کے دل کا حال ہے ان پر کھلا ہوا
غزل
قاصد تو خط کو لایا ہے کیوں کر کھلا ہوا
بلقیس بیگم