EN हिंदी
قائل کروں کس بات سے میں تجھ کو ستم گر | شیح شیری
qail karun kis baat se main tujhko sitamgar

غزل

قائل کروں کس بات سے میں تجھ کو ستم گر

سلیم شاہد

;

قائل کروں کس بات سے میں تجھ کو ستم گر
ڈھلوان پہ رکتا نہیں پانی ہو کہ پتھر

سورج نکل آیا تو وہ موسم نہ رہے گا
کچھ دیر کا مہماں ہے یہاں صبح کا منظر

باہر جو میں نکلوں تو برہنہ نظر آؤں
بیٹھا ہوں میں گھر میں در دیوار پہن کر

بے کار گیا گہرے سمندر میں اترنا
لہریں مجھے پھر ڈال گئیں ریت کے اوپر

آ دیکھ کہ ہوں اب بھی میں آغوش کشادہ
آنکھیں ہیں مری اوس میں بھیگا ہوا بستر

کیا مجھ سے مری عمر کا قد ناپ رہے ہو
ہر پل ہے یہاں کتنی ہی صدیوں کے برابر

بادل ہو تو پھر کھل کے برس لو کبھی شاہد
ہے بات اگر دل میں تو کہہ دو اسے منہ پر