پیاسی ہیں رگیں جسم کو خوں مل نہیں سکتا
سورج کی حرارت سے سکوں مل نہیں سکتا
بنیاد مرے گھر کی ہواؤں پہ رکھی ہے
ڈھونڈے سے کوئی سنگ ستوں مل نہیں سکتا
سب کے لیے لازم نہیں سمتوں کا تعین
میں راہ کی اس بھیڑ میں کیوں مل نہیں سکتا
اٹھا تھا بگولہ سا اڑا لے گیا سب کچھ
سوچا کیا میں خاک میں خوں مل نہیں سکتا
آ جاؤ پہ مجھ سے کوئی امید نہ رکھو
مل جاؤں گا میں یاں وہ جنوں مل نہیں سکتا
غزل
پیاسی ہیں رگیں جسم کو خوں مل نہیں سکتا
آفتاب عارف