EN हिंदी
پیاسی ہیں رگیں جسم کو خوں مل نہیں سکتا | شیح شیری
pyasi hain ragen jism ko KHun mil nahin sakta

غزل

پیاسی ہیں رگیں جسم کو خوں مل نہیں سکتا

آفتاب عارف

;

پیاسی ہیں رگیں جسم کو خوں مل نہیں سکتا
سورج کی حرارت سے سکوں مل نہیں سکتا

بنیاد مرے گھر کی ہواؤں پہ رکھی ہے
ڈھونڈے سے کوئی سنگ ستوں مل نہیں سکتا

سب کے لیے لازم نہیں سمتوں کا تعین
میں راہ کی اس بھیڑ میں کیوں مل نہیں سکتا

اٹھا تھا بگولہ سا اڑا لے گیا سب کچھ
سوچا کیا میں خاک میں خوں مل نہیں سکتا

آ جاؤ پہ مجھ سے کوئی امید نہ رکھو
مل جاؤں گا میں یاں وہ جنوں مل نہیں سکتا