EN हिंदी
پیاسے کے پاس رات سمندر پڑا ہوا | شیح شیری
pyase ke pas raat samundar paDa hua

غزل

پیاسے کے پاس رات سمندر پڑا ہوا

اقبال ساجد

;

پیاسے کے پاس رات سمندر پڑا ہوا
کروٹ بدل رہا تھا برابر پڑا ہوا

باہر سے دیکھیے تو بدن ہیں ہرے بھرے
لیکن لہو کا کال ہے اندر پڑا ہوا

دیوار تو ہے راہ میں سالم کھڑی ہوئی
سایہ ہے درمیان سے کٹ کر پڑا ہوا

اندر تھی جتنی آگ وہ ٹھنڈی نہ ہو سکی
پانی تھا صرف گھاس کے اوپر پڑا ہوا

ہاتھوں پہ بہہ رہی ہے لکیروں کی آب جو
قسمت کا کھیت پھر بھی ہے بنجر پڑا ہوا

یہ خود بھی آسمان کی وسعت میں قید ہے
کیا دیکھتا ہے چاند کو چھت پر پڑا ہوا

جلتا ہے روز شام کو گھاٹی کے اس طرف
دن کا چراغ جھیل کے اندر پڑا ہوا

مارا کسی نے سنگ تو ٹھوکر لگی مجھے
دیکھا تو آسماں تھا زمیں پر پڑا ہوا