EN हिंदी
پیاسے ہونٹوں سے جب کوئی جھیل نہ بولی بابو جی | شیح شیری
pyase honTon se jab koi jhil na boli babu-ji

غزل

پیاسے ہونٹوں سے جب کوئی جھیل نہ بولی بابو جی

کنور بے چین

;

پیاسے ہونٹوں سے جب کوئی جھیل نہ بولی بابو جی
ہم نے اپنے ہی آنسو سے آنکھ بھگو لی بابو جی

پھر کوئی کالا سپنا تھا پلکوں کے دروازوں پر
ہم نے یوں ہی ڈر کے مارے آنکھ نہ کھولی بابو جی

بھولے سے جانے انجانے وار نہ کرنا تم ان پر
جن جن کے کندھوں پر ہے یہ پریت کی ڈولی بابو جی

یہ مت پوچھو اس دنیا نے کون سے اب تیوہار دیئے
دی ہم کو اندھی دیوالی خون کی ہولی بابو جی

دل نکلے ہی محنت کے گھر ہاتھ جو ہم نے بھیجے تھے
وہ ہی خالی لے کر لوٹے شام کو جھولی بابو جی

ہم پر کتنے ظلم ہوئے ہیں کون بتائے دنیا کو
بندوقوں میں باقی ہے کیا ایک بھی گولی بابو جی

وہ بھی اپنی آنکھوں میں ناخون ہی لے کر بیٹھے تھے
دکھنے میں جن کی صورت تھی بہت ہی بھولی بابو جی

یہ کہہ کہہ کر کل ہم کو ساری خوشیاں مل جائیں گی
کرتے رہتے ہو کیوں ہم سے روز ٹھٹھولی بابو جی

اس میں کچھ ٹوٹے سپنے تھے کچھ آہیں کچھ آنسو تھے
جب جب بھی ہم نے یہ اپنی جیب ٹٹولی بابو جی

اب کی بار تو راکھی پر بھی بھی دے نہ سکی کچھ بھیا کو
اب اس کے سونے ماتھے پر صرف ہے رولی بابو جی