پیاس کو دریا رہا اور خاک کو صحرا رہا
اس کے معنی یہ ہوئے کے یہ سفر اچھا رہا
اب میں ڈوبا تب میں ڈوبا بس اسی امید میں
اک سمندر پاس میرے رات بھر بیٹھا رہا
میں کوئی منزل نہیں تھا میل کا پتھر تھا بس
بعد میرے بھی مسلسل راستہ چلتا رہا
ایک آہٹ آ کے میرے در سے واپس ہو گئی
اور میں کانوں کو تکیے سے دبا سوتا رہا
سن لیا تھا ایک دن اک سانس ہوگی آخری
اور پھر ہر سانس پہ اس سانس کا دھڑکا رہا
اک ذرا حضرت نے سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا
جو کبھی اک شخص تھا اب وہ فقط چہرہ رہا
زندگی اب اور کوئی غم دیا تو دیکھیو
خاک کر دوں گا تجھے میں یہ مرا وعدہ رہا
غزل
پیاس کو دریا رہا اور خاک کو صحرا رہا
چراغ بریلوی