پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے
ایک بادل سے بڑی آس لگا رکھی ہے
تیری آنکھوں کی کشش کیسے تجھے سمجھاؤں
ان چراغوں نے مری نیند اڑا رکھی ہے
کیوں نہ آ جائے مہکنے کا ہنر لفظوں کو
تیری چٹھی جو کتابوں میں چھپا رکھی ہے
تیری باتوں کو چھپانا نہیں آتا مجھ سے
تو نے خوشبو مرے لہجے میں بسا رکھی ہے
خود کو تنہا نہ سمجھ لینا نئے دیوانوں
خاک صحراؤں کی ہم نے بھی اڑا رکھی ہے
غزل
پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے
اقبال اشہر