EN हिंदी
پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے | شیح شیری
pyas dariya ki nigahon se chhupa rakkhi hai

غزل

پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے

اقبال اشہر

;

پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے
ایک بادل سے بڑی آس لگا رکھی ہے

تیری آنکھوں کی کشش کیسے تجھے سمجھاؤں
ان چراغوں نے مری نیند اڑا رکھی ہے

کیوں نہ آ جائے مہکنے کا ہنر لفظوں کو
تیری چٹھی جو کتابوں میں چھپا رکھی ہے

تیری باتوں کو چھپانا نہیں آتا مجھ سے
تو نے خوشبو مرے لہجے میں بسا رکھی ہے

خود کو تنہا نہ سمجھ لینا نئے دیوانوں
خاک صحراؤں کی ہم نے بھی اڑا رکھی ہے