پیارا سا خواب نیند کو چھو کر گزر گیا
مایوسیوں کا زہر گلے میں اتر گیا
آنکھوں کو کیا چھلکنے سے روکا غضب ہوا
لگتا ہے سارا جسم ہی اشکوں سے بھر گیا
دیکھے تہہ چراغ گھنی ظلمتوں کے داغ
اور میں فزون کیف و مسرت سے ڈر گیا
تنہائیاں ہی شوق سے پھر ہم سفر ہوئیں
جب نشۂ جنون رفاقت اتر گیا
کوچے سے بھی جو اپنے گزرتا نہ تھا کبھی
کیا سوچ کر اٹھا تھا کہ جاں سے گزر گیا
معمولی ہے کہ صبح جلاتا ہوں خود کو میں
ہوتا یہ ہے کہ روز سر شام مر گیا
اب جس کو جو سمجھنا ہو سمجھا کرے تو کیا
راشدؔ ترا سکوت عجب کام کر گیا
غزل
پیارا سا خواب نیند کو چھو کر گزر گیا
راشد جمال فاروقی