EN हिंदी
پیار کو پا کر جو محرومی ہوئی | شیح شیری
pyar ko pa kar jo mahrumi hui

غزل

پیار کو پا کر جو محرومی ہوئی

انور ندیم

;

پیار کو پا کر جو محرومی ہوئی
کچھ ہمارے دل کی مجبوری ہوئی

دور سے سہما ہوا بحر خموش
دیکھتا ہے زندگی جلتی ہوئی

ہے ابھی تعبیر کی رنگت وہی
صورتیں ہیں خواب کی بدلی ہوئی

میرے کمرے میں سبھی چیزیں ہیں آج
زندگانی کی طرح بکھری ہوئی

آج بھی یادوں کے ویرانے میں دوست
تیری صورت ہے ذرا ابھری ہوئی