پیار کی نئی دستک دل پہ پھر سنائی دی
چاند سی کوئی صورت خواب میں دکھائی دی
کس نے میری پلکوں پہ تتلیوں کے پر رکھے
آج اپنی آہٹ بھی دیر تک سنائی دی
ہم غریب لوگوں کے آج بھی وہی دن ہیں
پہلے کیا اسیری تھی آج کیا رہائی دی
بارشوں کے چہرے پر آنسوؤں سے لکھنا ہے
کچھ نہ کوئی پڑھ پائے ایسی روشنائی دی
آسماں زمیں رکھ کر دونوں ایک مٹھی میں
اک ذرا سی لڑکی نے پیار کی خدائی دی
یہ تنک مزاجی تو خیر اس کی فطرت میں ہے
ورنہ اس نے چاہت بھی ہم کو انتہائی دی
یہ تناؤ قدرت نے دو دلوں میں کیوں رکھا
مجھ کو کج کلاہی دی اس کو کج ادائی دی
غزل
پیار کی نئی دستک دل پہ پھر سنائی دی
بشیر بدر