پیار دلار کے سائے سائے چلا کرو
جلتے لوگو کچھ تو اپنا بھلا کرو
پیار کی آنچ نکھار کا باعث بنتی ہے
جلنا ہے تو پیار کی آگ میں جلا کرو
سوچ تمہاری کندن بن کر دمکے گی
کسی کی تپتی یادوں میں تم ڈھلا کرو
پیڑ یہاں کچھ سدا بہار بھی ہوتے ہیں
موسم موسم تم بھی پھولا پھلا کرو
کوئی منظر پاؤں کی زنجیر نہیں
وادی وادی آزادی سے چلا کرو
اس میں ہیں کچھ بدنامی کے پہلو بھی
جھوٹے چھلبل سے مت کسی کو چھلا کرو
ننگا کر دیتی ہے غم کو ہنسی قتیلؔ
چہرے پر یہ غازہ کم کم کرا کرو
غزل
پیار دلار کے سائے سائے چلا کرو
قتیل شفائی