پوچھتے ہو مرے اشعار میں کیا رکھا ہے
ایک محشر ہے کہ لفظوں میں چھپا رکھا ہے
مدتیں ہو گئیں دیکھے ہوئے آئینہ ہمیں
ایک تصویر کی تصویر میں کیا رکھا ہے
وہی بدلے ہوئے تیور وہی کل کا وعدہ
اس لیے ہم نے ترا نام خدا رکھا ہے
آج تک ناخن فطرت ہیں لہو سے رنگیں
میری تخلیق سے ہاتھوں کو سجا رکھا ہے
اور کچھ ہو کہ نہ ہو گھر میں اجالا تو رہے
اک دیا ہم نے امیدوں کا جلا رکھا ہے
غزل
پوچھتے ہو مرے اشعار میں کیا رکھا ہے
موسیٰ رضا