پوچھتا کون وفا سے اس کی
مر گئے لوگ بلا سے اس کی
دیکھو کس طور سنور جاتا ہے
مجھ سا صحرا بھی گھٹا سے اس کی
یار ہم خاک بہ سر خاک نشیں
اس فضا میں ہیں ہوا سے اس کی
اب کوئی صبح جگائے گی کیا
ہم کو اٹھنا ہے صدا سے اس کی
لوٹ جائے گی بہار اس کے ساتھ
سبز موسم ہے فضا سے اس کی
ذکر کرتے ہیں قضا سے اس کا
ہم جو جیتے ہیں دوا سے اس کی
زخم کے پھول کھلے ہیں تن میں
لہلہاتا ہوں ہوا سے اس کی

غزل
پوچھتا کون وفا سے اس کی
دنیش نائیڈو