پوچھ مت کل آئنہ میں کیا ہوا
اپنے زندہ ہونے کا دھوکہ ہوا
روز سورج ڈوبتا اگتا ہوا
وقت کی اک کیل پر لٹکا ہوا
آ گیا لے کر ادھاری روشنی
چاند نے سورج کو ہے پہنا ہوا
تشنگی اپنی بجھائیں کیسے ہم
جو سمندر تھا وہ اب صحرا ہوا
شہر سے جب بھی یہ دل اکتا گیا
دشت کی جانب مرا جانا ہوا
خوبیاں میری کوئی گنتا نہیں
اک ذرا سی بھول کا چرچا ہوا
آ گئی ہوں دور چلتے چلتے میں
آسماں پر ہے وہیں ٹھہرا ہوا
یاد اس کی دل سے کیوں جاتی نہیں
وہ تو سیماؔ کل تھا اک گزرا ہوا
غزل
پوچھ مت کل آئنہ میں کیا ہوا
سیما شرما میرٹھی