پرانی چوٹ میں کیسے دکھاؤں
اٹھے جب درد تو پھر مسکراؤں
بہت سے لوگ مجھ میں رو رہے ہیں
اماں کس کس کو یاں پر چپ کراؤں
تمہاری یاد جو اب مر چکی ہے
میں اس دفن کر دوں یا جلاؤں
بہت جی چاہتا ہے کچھ دنوں سے
میں اپنے آپ سے ہی روٹھ جاؤں
مری خاطر دعا کرنا مرے دوست
کسی دن خود کو سچ میں بھول جاؤں
گزارش ہے نہ مجھ کو یاد آئے
تمنا ہے نہ تجھ کو یاد آؤں
تمہارا نام پھر ساحل پہ لکھوں
لہر سے آنے پہلے خود مٹاؤں
بناؤں گا میں خود کو جی کیا تو
فقط بگڑی ہوئی میں کیوں بناؤں
میں بھیتر سے بہت ٹوٹا ہوا ہوں
کسی سے حال اپنا کیا چھپاؤں
غزل
پرانی چوٹ میں کیسے دکھاؤں
تری پراری