پرانے گھر سے نکل کر نئے مکان کی سمت
بہت سے لوگ گئے اک عجب جہان کی سمت
پکارتا ہے جو صدیوں سے ہم کو اے یارو
چلو چلے چلیں اس ٹوٹے سائبان کی سمت
جو ایک عمر سے رہتا تھا برف زاروں میں
چلا ہے کس لیے جلتی ہوئی چٹان کی سمت
ملا تھا راہ میں بیٹھا جو ایک دن ہم کو
سنا ہے جا چکا وہ شخص آسمان کی سمت
مرا جہاز جو پہنچے گا اس جزیرے میں
نہ کوئی غور سے دیکھے گا بادبان کی سمت
کبھی جو سوچا ہے حق بات کہہ دوں اے اسعدؔ
بڑھی ہیں قینچیاں کتنی مری زبان کی سمت

غزل
پرانے گھر سے نکل کر نئے مکان کی سمت
اسعد بدایونی