EN हिंदी
پرانے داؤں پر ہر دن نئے آنسو لگاتا ہے | شیح شیری
purane danw par har din nae aansu lagata hai

غزل

پرانے داؤں پر ہر دن نئے آنسو لگاتا ہے

راحتؔ اندوری

;

پرانے داؤں پر ہر دن نئے آنسو لگاتا ہے
وہ اب بھی اک پھٹے رومال پر خوشبو لگاتا ہے

اسے کہہ دو کہ یہ اونچائیاں مشکل سے ملتی ہیں
وہ سورج کے سفر میں موم کے بازو لگاتا ہے

میں کالی رات کے تیزاب سے سورج بناتا ہوں
مری چادر میں یہ پیوند اک جگنو لگاتا ہے

یہاں لچھمن کی ریکھا ہے نہ سیتا ہے مگر پھر بھی
بہت پھیرے ہمارے گھر کے اک سادھو لگاتا ہے

نمازیں مستقل پہچان بن جاتی ہے چہروں کی
تلک جس طرح ماتھے پر کوئی ہندو لگاتا ہے

نہ جانے یہ انوکھا فرق اس میں کس طرح آیا
وہ اب کالر میں پھولوں کی جگہ بچھو لگاتا ہے

اندھیرے اور اجالے میں یہ سمجھوتہ ضروری ہے
نشانے ہم لگاتے ہیں ٹھکانے تو لگاتا ہے