پرانا زخم جسے تجربہ زیادہ ہے
زیادہ دکھتا نہیں سوچتا زیادہ ہے
ذرا زیادہ محبت بھی چاہیے ہم کو
ہمارا دل بھی تو ٹوٹا ہوا زیادہ ہے
ترا وصال ضرورت ہے جسم و جاں کی تو ہو
ترا خیال مرے کام کا زیادہ ہے
جو مسجدوں کی طرف اس قدر بلاتے ہیں
تو کیا یہ ہے کہ کہیں کچھ خدا زیادہ ہے
میں بار بار جو اس کی طلب میں جاتا ہوں
خیال خام میں شاید مزا زیادہ ہے
امیر شہر سے اب کون باز پرس کرے
کہ اس کے پاس بہت سی قبا زیادہ ہے
یہ آئنہ مرا آئینۂ محبت ہے
پر اس میں عکس کسی اور کا زیادہ ہے
بدن کے باغ میں سب رونقیں ہیں دل کے قریب
اسی نواح میں باد صبا زیادہ ہے
ہجوم شدت احساسؔ باڑھ پر ہے آج
کرم بھی آج غزل کا ذرا زیادہ ہے
غزل
پرانا زخم جسے تجربہ زیادہ ہے
فرحت احساس