پکارتی ہے جو تجھ کو تری صدا ہی نہ ہو
نہ یوں لپک کہ پلٹنے کو حوصلہ ہی نہ ہو
تمام حرف ضروری نہیں ہوں بے معنی
یہ آسمان ادھر جھک کے ٹوٹتا ہی نہ ہو
ملے تھے یوں کہ جدا ہو کے ایسے ملتے ہیں
ہمارے بیچ کبھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو
ہر ایک شخص بھٹکتا ہے تیرے شہر میں یوں
کسی کی جیب میں جیسے ترا پتا ہی نہ ہو
جو ہوتا جاتا ہے مایوس دن بہ دن تجھ سے
ذرا قریب سے دیکھ اس کو آئنا ہی نہ ہو
جہاں کو چھان کے بیٹھا ہے اس طرح شاہدؔ
تمام عمر میں جیسے کبھی چلا ہی نہ ہو
غزل
پکارتی ہے جو تجھ کو تری صدا ہی نہ ہو
شاہد کبیر