پکارتا ہوں کہ تم حاصل تمنا ہو
اگرچہ میری صدا بھی صدا بہ صحرا ہو
جہاں تمہارا ہے ہوگا وہی جو تم چاہو
مجھے بھی چاہنے دو کچھ اگر تو پھر کیا ہو
جہان و اہل جہاں کو کسی سے کام نہیں
مرے قریب تو آؤ کہ تم بھی تنہا ہو
زمانہ مدفن ایام ہے خموش رہو
نہ جانے کون ہماری صدا کو سنتا ہو
بھرم کھلا ہے تو ایسے ہر اک کو دیکھتا ہوں
کہ جیسے میں نے کبھی آدمی نہ دیکھا ہو
ترا کرم ہے کہ میں تیرے دم سے جیتا ہوں
مرا نصیب کہ تو میرے دم سے رسوا ہو
ترے خیال میں گم ہو کے طے کئے میں نے
وہ مرحلے کہ جہاں موج آبلہ پا ہو
سزائے زیست قیامت سہی مگر ہم لوگ
وہ زندہ ہیں جنہیں ہر روز روز فردا ہو
دھڑکتے دل کی صدا بھی عجیب شے ہے ظفرؔ
کہ جیسے کوئی مرے ساتھ ساتھ چلتا ہو
غزل
پکارتا ہوں کہ تم حاصل تمنا ہو
یوسف ظفر