پکارا نت نئے محور بدلنے والوں نے
پلٹ کے دیکھا نہ لیکن سنبھلنے والوں نے
کیا نہ ایک بھی پل کے لئے قیام کہیں
زمیں کی خاک پہ صدیوں سے چلنے والوں نے
نظر سے آئی صدائے شکست خواہش قرب
بڑھائے ہاتھ اگر ہاتھ ملنے والوں نے
قبول کر لیا ہر دائرے کی دعوت کو
حصار جبر سے باہر نکلنے والوں نے
مرے وجود کے خورشید کی شعاعوں کو
سلا دیا ہے اندھیروں میں جلنے والوں نے
وہ خوف کیا تھا کہ جس کے نزول پر خالدؔ
کہا نہ کچھ بھی بہت کچھ اگلنے والوں نے

غزل
پکارا نت نئے محور بدلنے والوں نے
خالد شیرازی