پٹریوں کی چمکتی ہوئی دھار پر فاصلے اپنی گردن کٹاتے رہے
دوریاں منزلوں کی سمٹتی رہیں لمحہ لمحہ وہ نزدیک آتے رہے
زندہ مچھلی کی شاید تڑپ تھی انہیں سارے بگلے سمندر کی جانب اڑے
ریت کے زرد کاغذ پہ کچھ سوچ کر نام لکھ لکھ کے تیرا مٹاتے رہے
نرم چاہت کی پھیلی ہوئی گھاس کو وقت کے سخت پتھر نہ روندیں کہیں
بس یہی خوف اپنی نگاہوں میں تھا مسکرانے کو ہم مسکراتے رہے
چلچلاتی ہوئی دھوپ کی آنچ میں یوں جھلسنا تو اپنا مقدر رہا
ذہن میں نرم و نازک گھنی چھاؤں سے تیرے آنچل مگر سرسراتے رہے
یاس کی خشک ٹہنی پہ کیسے لگا بور خوابوں کا مجھ سے نہ کچھ پوچھنا
زندگی لمحہ لمحہ مجھے مل گئی قطرہ قطرہ وہ چاہت لٹاتے رہے

غزل
پٹریوں کی چمکتی ہوئی دھار پر فاصلے اپنی گردن کٹاتے رہے
یوسف تقی