پوشیدہ عجب زیست کا اک راز ہے مجھ میں
بے پر ہوں مگر جرأت پرواز ہے مجھ میں
دنیا میں ترے ساتھ ابھی چل نہ سکوں گا
کچھ باقی ابھی ظرف کی آواز ہے مجھ میں
صفحات پہ بکھرے ہیں مرے سینکڑوں سورج
انساں کے ہر اک باب کا آغاز ہے مجھ میں
مجروح تو کر سکتا نہیں تیرے یقیں کو
اے دوست مگر فطرت ہم راز ہے مجھ میں
کوئی مجھے بد کار کہے اس کی خطا کیا
یہ میرا ہی بخشا ہوا اعزاز ہے مجھ میں
جز تیرے مرا سر نہ جھکا آگے کسی کے
یہ ناز ہے گر جرم تو یہ ناز ہے مجھ میں
غزل
پوشیدہ عجب زیست کا اک راز ہے مجھ میں
حامد مختار حامد