EN हिंदी
پی کر شراب شوق کوں بے ہوش ہو بے ہوش ہو | شیح شیری
pi kar sharab-e-shauq kun behosh ho behosh ho

غزل

پی کر شراب شوق کوں بے ہوش ہو بے ہوش ہو

سراج اورنگ آبادی

;

پی کر شراب شوق کوں بے ہوش ہو بے ہوش ہو
جیوں غنچہ لب کوں بند کر خاموش ہو خاموش ہو

ہو عاشق خونیں جگر جیوں لالہ اس گل زار میں
کھا دل پہ داغ عاشقی گل پوش ہو گل پوش ہو

تجھ کوں اگر ہے آرزو اس خوش ادا کے وصل کی
اے دل سراپا شوق میں آغوش ہو آغوش ہو

امڈا ہے دریا درد کا یارب مجھے رسوا نہ کر
آیا ہے جوش اس دیگ کوں سرپوش ہو سرپوش ہو

مجلس میں غم کی اے سراجؔ اب وقت آیا دور کا
گر خون دل موجود ہے مے نوش ہو مے نوش ہو