پی کر شراب شوق کوں بے ہوش ہو بے ہوش ہو
جیوں غنچہ لب کوں بند کر خاموش ہو خاموش ہو
ہو عاشق خونیں جگر جیوں لالہ اس گل زار میں
کھا دل پہ داغ عاشقی گل پوش ہو گل پوش ہو
تجھ کوں اگر ہے آرزو اس خوش ادا کے وصل کی
اے دل سراپا شوق میں آغوش ہو آغوش ہو
امڈا ہے دریا درد کا یارب مجھے رسوا نہ کر
آیا ہے جوش اس دیگ کوں سرپوش ہو سرپوش ہو
مجلس میں غم کی اے سراجؔ اب وقت آیا دور کا
گر خون دل موجود ہے مے نوش ہو مے نوش ہو
غزل
پی کر شراب شوق کوں بے ہوش ہو بے ہوش ہو
سراج اورنگ آبادی