پی کر چین اگر آیا بھی کتنی دیر کو آئے گا
نشہ اک آوارہ پنچھی چہکے گا اڑ جائے گا
منظر کی تکمیل نہ ہوگی تنہا مجھ سے فن کارو
دکھ کے گیت تو میں گا دوں گا آنسو کون بہائے گا
ایک سخی کو اپنا سمجھ کر عرض حال کی ٹھانی ہے
بیری دل کہتا ہے پگلے کاسہ بھی چھن جائے گا
میرا سمندر پار سفر پر جانا ایک قیامت ہے
جیسے ہر چہرے پہ لکھا ہو میرے لیے کیا لائے گا
جاتے جاتے پوچھ رہا ہے امن کے رکھوالوں سے حفیظؔ
کیوں جی کیا ہم لوگوں سے میرٹھ خالی ہو جائے گا
غزل
پی کر چین اگر آیا بھی کتنی دیر کو آئے گا
حفیظ میرٹھی