پچھلی رات کی نرم چاندنی شبنم کی خنکی سے رچا ہے
یوں کہنے کو اس کا تبسم برق صفت ہے شعلہ نما ہے
وقت کو ماہ و سال کی زنجیروں میں جکڑ کر کیا پایا ہے
وقت تو ماہ و سال کی زنجیروں میں اور بھی تیز بڑھا ہے
اک معصوم سے پیار کا تحفہ گھر کے آنگن میں پایا تھا
اس کو غم کے پاگل پن میں کوٹھے کوٹھے بانٹ دیا ہے
آنسو تارے رنگ گلاب سبھی پردیس چلے جاتے ہیں
آخر آخر تنہائی ہے کس نے کس کا ساتھ دیا ہے
نظم غزل افسانہ گیت اک طرح ہی غم تھا جس کو ہم نے
کیسا کیسا نام دیا ہے کیسے کیسے بانٹ لیا ہے
آہوں کے بادل کیوں دل میں بن برسے ہی لوٹ گئے ہیں
اب کے برس ساون کا مہینہ کیسا پیاسا پیاسا گیا ہے
پھول سی ہر تصویر میں ذہن کی دیواروں سے اتار چکا ہوں
پھر بھی دل میں کانٹا سا کیوں رہ رہ کر چبھتا رہتا ہے
مجبوری تھی صبر کیا ہے پاؤں کو توڑ کے بیٹھ رہے ہیں
نگری نگری دیکھ چکے ہیں دوارے دوارے جھانک لیا ہے
مجھ کو ان سچی باتوں سے اپنے جھوٹ بہت پیارے ہیں
جن سچی باتوں سے اکثر انسانوں کا خون بہا ہے
بدرؔ تمہاری فکر سخن پر اک علامہ ہنس کر بولے
وہ لڑکا نو عمر پرندہ اونچا اڑنا سیکھ رہا ہے
غزل
پچھلی رات کی نرم چاندنی شبنم کی خنکی سے رچا ہے
بشیر بدر