پھولوں سے سج گئی کہیں سبزہ پہن لیا
بارش ہوئی تو دھرتی نے کیا کیا پہن لیا
جب سے پڑھی چٹائی نشینوں کی زندگی
موٹا مہین جو بھی ملا کھا پہن لیا
اک جسم ہے جو روز بدلتا ہے کچھ لباس
اک روح ہے کہ اس نے جو پہنا پہن لیا
ایسا لگا کہ خود بھی بڑا ہو گیا ہوں میں
جب بھی بڑوں کا میں نے اتارا پہن لیا
خود مل گیا ہے ذہن کو منزل کا ہر سراغ
قدموں نے جب سفر کا ارادہ پہن لیا
میں نے بھی آنکھ پھیر لی اس کی طرف سے آج
اس نے بھی آج دوسرا چہرہ پہن لیا
بے اختیار ہو گئے جب بھی ہمارے اشک
گھبرا کے ہم نے آنکھوں پہ چشمہ پہن لیا
غزل
پھولوں سے سج گئی کہیں سبزہ پہن لیا
شاہد جمال