پھولوں میں جھلک حسن رخ یار کی نکلی
ہم خوش ہیں کوئی شکل تو دیدار کی نکلی
الفاظ سے خوشبو ترے کردار کی نکلی
جب بات مسیحا ترے گفتار کی نکلی
نیلام ہوئے چاند ہر اک شہر میں لیکن
رونق نہ کہیں مصر کے بازار کی نکلی
ہونٹوں کی ہنسی بن گئے جو زخم تھے دل میں
صورت کوئی جب اور نہ اظہار کی نکلی
دیکھا تو یہ سمجھے کسی درویش کا گھر ہے
پوچھا تو وہ کٹیا بھی زمیندار کی نکلی
پھر پھول برسنے لگے لفظوں کے دہن سے
پھر بات کسی کے لب و رخسار کی نکلی
زنجیر کی تنگی تھی اسیران وفا تھے
آواز بھی زنداں سے نہ جھنکار کی نکلی
غزل
پھولوں میں جھلک حسن رخ یار کی نکلی
مہتاب عالم