EN हिंदी
پھولوں میں ایک رنگ ہے آنکھوں کے نیر کا | شیح شیری
phulon mein ek rang hai aaankhon ke nir ka

غزل

پھولوں میں ایک رنگ ہے آنکھوں کے نیر کا

احمد شناس

;

پھولوں میں ایک رنگ ہے آنکھوں کے نیر کا
منظر تمام تر ہے یہ فصل ضمیر کا

رشتہ وہ کیا ہوا مری آنکھوں سے نیر کا
مدت ہوئی ہے حادثہ دیکھے ضمیر کا

پانی اتر گیا تو زمیں سنگلاخ تھی
تیکھا سا ہر سوال تھا رانجھے سے ہیر کا

تیری اذاں کے ساتھ میں اٹھتا ہوں پو پھٹے
سر میں لیے ہوئے کوئی سجدہ اسیر کا

دیکھا نہ دوستوں نے عمارت کے اس طرف
پوچھا کبھی نہ حال کسی نے فقیر کا

آئینہ گر پڑا تھا مرے ہاتھ سے کبھی
پھر یاد حادثہ نہیں کوئی ضمیر کا

صحرائے جسم روح کے اندر اتر گیا
اب کیا دکھائے معجزہ انساں ضمیر کا

آنسو کی ایک بوند کو آنکھیں ترس گئیں
اس دھوپ میں جھلس گیا دوہا کبیر کا

آدھا فلک کے پاس تھا آدھا زمین پر
میں ناتمام خواب تھا بدر منیر کا

پکے حروف گرد کی صورت بکھر گئے
سینے میں گھاؤ رہ گیا کچی لکیر کا

ہوتی رہیں گی بارشیں احمدؔ وصال کی
خالی رہے گا جام ہمیشہ فقیر کا