پھولوں کو اپنے پاؤں سے ٹھکرائے جاتے ہیں
مل کر وہ عطر باغ میں اترائے جاتے ہیں
اے دل قرار صبر ہے لازم فراق میں
بیتابیوں سے کیا وہ تری آئے جاتے ہیں
آئے ہیں دن بہار کے صیاد کہہ رہا
طائر قفس میں باغ کے گھبرائے جاتے ہیں
چہلوں سے چھیڑ چھاڑ سے واقف نہیں ہیں وہ
کیا گدگدائیے کہ وہ شرمائے جاتے ہیں
تر شرم کے پسینے سے ایسے ہوئے ہیں رات
ملبوس خاص دھوپ میں سکھلائے جاتے ہیں
نازک کمر وہ ایسے ہیں وقت خرام ناز
زلفیں جو کھولتے ہیں تو بل کھائے جاتے ہیں
شکر خدائے پاک ہے اے نادرؔ حزیں
امت میں ہم رسول کی کہلائے جاتے ہیں
غزل
پھولوں کو اپنے پاؤں سے ٹھکرائے جاتے ہیں
نادر لکھنوی