EN हिंदी
پھولوں کو اپنے پاؤں سے ٹھکرائے جاتے ہیں | شیح شیری
phulon ko apne panw se Thukrae jate hain

غزل

پھولوں کو اپنے پاؤں سے ٹھکرائے جاتے ہیں

نادر لکھنوی

;

پھولوں کو اپنے پاؤں سے ٹھکرائے جاتے ہیں
مل کر وہ عطر باغ میں اترائے جاتے ہیں

اے دل قرار صبر ہے لازم فراق میں
بیتابیوں سے کیا وہ تری آئے جاتے ہیں

آئے ہیں دن بہار کے صیاد کہہ رہا
طائر قفس میں باغ کے گھبرائے جاتے ہیں

چہلوں سے چھیڑ چھاڑ سے واقف نہیں ہیں وہ
کیا گدگدائیے کہ وہ شرمائے جاتے ہیں

تر شرم کے پسینے سے ایسے ہوئے ہیں رات
ملبوس خاص دھوپ میں سکھلائے جاتے ہیں

نازک کمر وہ ایسے ہیں وقت خرام ناز
زلفیں جو کھولتے ہیں تو بل کھائے جاتے ہیں

شکر خدائے پاک ہے اے نادرؔ حزیں
امت میں ہم رسول کی کہلائے جاتے ہیں