پھولوں کی چاند تاروں کی محفل فریب ہے
رنگیں حقیقتوں میں بھی شامل فریب ہے
پانی کے مد و جزر کو سمجھا ہے زندگی
موجیں بھی ہیں فریب جو ساحل فریب ہے
رنگینئ حیات کا عالم نہ پوچھیے
ہر آرزو فریب ہے ہر دل فریب ہے
محسوس دل میں درد سا ہونے لگا ہے کیوں
کیا پیار کی نظر میں بھی شامل فریب ہے
بس رک گیا تو رک گیا الفت کی راہ میں
منزل نہ کر قبول کہ منزل فریب ہے
ان کی نگاہ لطف ہے عارفؔ کی زندگی
کیا غم اگر حیات میں شامل فریب ہے

غزل
پھولوں کی چاند تاروں کی محفل فریب ہے
محمد عثمان عارف