پھولا پھلا شجر تو ثمر پر بھی آئے گا
لیکن اسی لحاظ سے پتھر بھی آئے گا
حالات جب بھی شہر کے فلمائے جائیں گے
پردے پہ میرے قتل کا منظر بھی آئے گا
بے چہرہ پھر رہا ہوں مگر اس یقیں کے ساتھ
آئینہ میرے قد کے برابر بھی آئے گا
کب تک کوئی چھپے گا عداوت کے غار میں
دشمن کبھی تو سامنے کھل کر بھی آئے گا
بے وجہ رنجشوں سے دلوں کو بچایئے
ذہنوں کا بھید بھاؤ لبوں پر بھی آئے گا
بہتر ہے دوستو کہ یہیں ڈال دو پڑاؤ
آگے بڑھے تو شہر ستم گر بھی آئے گا
ابھریں گے پستیوں سے بھی اک روز ہم ظفرؔ
اونچائیوں پہ اپنا مقدر بھی آئے گا
غزل
پھولا پھلا شجر تو ثمر پر بھی آئے گا
ظفر کلیم