پھول زخمی ہیں خار زخمی ہے
اب کے ساری بہار زخمی ہے
میری آنکھوں سے خون بہتا ہے
کس قدر انتظار زخمی ہے
میری گردن تو کاٹ دی ہے مگر
خود بھی وہ ذو الفقار زخمی ہے
تیری حیوانیت پہ اے انساں
نظم لیل و نہار زخمی ہے
حسن نے ایسی ضرب ماری ہے
اب تلک میرا پیار زخمی ہے
تیری نصرت کو آ نہیں سکتا
تیرا یہ جاں نثار زخمی ہے
اب کسی پر یقیں نہیں ہے مجھے
اس قدر اعتبار زخمی ہے
غزل
پھول زخمی ہیں خار زخمی ہے
معراج نقوی