EN हिंदी
پھول زخمی ہیں خار زخمی ہے | شیح شیری
phul zaKHmi hain Khaar zaKHmi hai

غزل

پھول زخمی ہیں خار زخمی ہے

معراج نقوی

;

پھول زخمی ہیں خار زخمی ہے
اب کے ساری بہار زخمی ہے

میری آنکھوں سے خون بہتا ہے
کس قدر انتظار زخمی ہے

میری گردن تو کاٹ دی ہے مگر
خود بھی وہ ذو الفقار زخمی ہے

تیری حیوانیت پہ اے انساں
نظم لیل و نہار زخمی ہے

حسن نے ایسی ضرب ماری ہے
اب تلک میرا پیار زخمی ہے

تیری نصرت کو آ نہیں سکتا
تیرا یہ جاں نثار زخمی ہے

اب کسی پر یقیں نہیں ہے مجھے
اس قدر اعتبار زخمی ہے